اس کے بعد وہ مسلمان شخص نیند سے اٹھا اور چیخیں مارتا ہوا باہر نکلا اور پوچھا کہ وہ بیوہ عورت کہاں گئی؟ لوگوں نے کہا کہ مجوسی کے پاس گئی ہے‘ پھر وہ ننگے پاؤں دوڑ کر اس مجوسی کے دروازے پر آیا اور زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا‘ مجوسی باہر نکلا اور پوچھا کیا بات ہے؟
پیارے بچو! یہ واقعہ آج سے تقریباً پانچ سو سال پہلے کا ہے۔
سمرقند میں ایک مسلمان بڑی مال دولت والے تھے‘ ان کے پاس ایک دن ایک بیوہ عورت اپنی دو یتیم بیٹیوں کے ساتھ آئی اور درخواست کی کہ میں مسلمان ہوں اور آل رسول ﷺ سے ہوں‘ میرے ساتھ چھوٹی بچیاں ہیں ہم بے یارو مددگار ہیں‘ ہمیں رہنے کے لیے پناہ دے‘ بچیوں کو بہت زیادہ بھوک لگی ہے‘ کھانے کیلئے بھی کچھ دیا جائے‘ اس مسلمان شخص نے کہا کہ گواہ پیش کر کہ تو آل رسول ﷺ ہے۔ اس بیچاری غریب عورت نے دکھ بھرے الفاظ میں کہا کہ میں پردیسی ہوں‘ یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا پہچانتا۔ تو مسلمان شخص نے بولا: یہاں تو بہت لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم آل رسول ﷺ میں سے ہیں۔ ہماری مدد کرو‘ یہ کہہ کر اس شخص نے اس بیوہ عورت سے منہ پھیرلیا۔
بس دکھ کو اندر ہی رکھ کر مایوسی کی حالت میں وہ عورت بیچاری اس کے گھر سے باہر نکلی‘ باہر کسی سے پوچھا کہ یہاں کوئی مالدار آدمی ہے‘ اس نے بتایا کہ یہاں ایک مجوسی آدمی ہے‘ بہت سخی ہے‘ اس کے پاس چلی جا‘ بیچاری عورت مجبوری کی حالت میں اس کے پاس گئی اور اسے سارا قصہ سنایا اور اس سے جائے پناہ مانگی‘ مجوسی شخص نے دیر ہی نہ کی‘ اس عورت اور اس کی یتیم بیٹیوں کو لے کر اپنے گھر آئے او ان کو کھلایا پلایا اور بعد میں ان کو آرام کرنے کیلئے ایک کمرہ دیا۔
رات اس مسلمان شخص کے خواب میں حضور نبی کریم ﷺ تشریف لائے‘ اس شخص نے دکھا کہ آپﷺ ایک خوبصورت محل کے اوپر جھنڈا لہرا رہے ہیں‘ مسلمان شخص نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ یہ ایسا خوبصورت محل کس کا ہے‘ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ ایک مسلمان کا ہے‘ اس شخص نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ! میں بھی مسلمان ہوں! آپﷺ نے فرمایا: اپنےمسلمان ہونے کا ثبوت پیش کر اور آپﷺ جلال میں آگئے پھر فرمایا: میری بیٹی اپنے یتیم بچوں کے ساتھ تیرے پاس آئی اور تجھ سے پناہ مانگی تو تو نے اس سے گواہ طلب کیے اور میری بیٹی کو دھتکار دیا اور کہا کہ میری نظروں سے ہٹ جا۔اس کے بعد وہ مسلمان شخص نیند سے اٹھا اور چیخیں مارتا ہوا باہر نکلا اور پوچھا کہ وہ بیوہ عورت کہاں گئی؟ لوگوں نے کہا کہ مجوسی کے پاس گئی ہے‘ پھر وہ ننگے پاؤں دوڑ کر اس مجوسی کے دروازے پر آیا اور زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا‘ مجوسی باہر نکلا اور پوچھا کیا بات ہے؟ اس وقت آئے‘ خیر تو ہے؟۔مسلمان نے پوچھا: وہ بیوہ عورت اور بچے کہاں ہیں؟ میں ان کو لینے آیا ہوں‘تم اس عوت اور اس کی بچیوں سمیت میرے حوالے کردو۔
مجوسی بولا: تم پہلے کہاں تھے؟ اب یہ سودا نہیں ہوگا۔ مسلمان نے کہا جتنی جائیداد مجھ سے مانگو میں دوں گا اور دس ہزار دینار تو اسی وقت دیتا ہوں باقی جو بھی مانگو گے میں ادا کروں گا لیکن یہ عورت اور بچیاں میرے حوالے کردو۔
مجوسی یہ سن کر رو پڑا اور بولا کہ سنو کہ میں نے بن دیکھے سودا کیا ہے ابھی واپس نہ کروں گا۔
مسلمان بولا: میں بھی مسلمان اور عورت اور بچیاں بھی مسلمان ہیں۔ تو میری بات کیوں نہیں مانتا؟ مجوسی روتے ہوئے بولا: جیسے ہی عورت میرے گھر آئی‘ میری زبان پر کلمہ جاری ہوگیا اور میں مسلمان ہوگیا‘ میرے گھروالوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا ہے‘ اب ہم مجوسی نہیں بلکہ الحمدللہ مسلمان ہیں۔
اس بیوہ عورت کے آنےسے میرے گھر میں اسلام داخل ہوچکا ہے اب میں کیسے آپ کی بات مان لوں۔ کیسے اپنے نبی ﷺ کی آل کو گھر سے نکال دوں؟۔اور ہاں کان کھول کر سن لو جو خواب آپ نے دیکھا ہے وہ میں نے بھی دیکھا ہے۔ تیرے نبی ﷺ تجھے ٹھکرا رہے تھے اور میرے نبی ﷺ مجھے قبول فرمارہے تھے۔
دیکھا پیارے بچو! کیسے ایک غریب مجبور عورت کی مدد کرنے سے ایک غیرمسلم شخص کو ایمان جیسی دولت ملی اور اس کے ساتھ جنت میں محل بھی مل گیا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ معاشرے میں موجود غریب ‘ مجبور اور بے کس افراد کی ہرممکن مدد کریں اور وہ بھی بغیر کسی کو بتائے تاکہ آپ کو اس کا زیادہ سے زیادہ اجر ملے۔(سلیم اللہ سومرو‘ کنڈیارو)
ننھی گلہری
سردی رخصت ہورہی تھی۔ دھوپ کی حدت بڑھ گئی تھی۔ ننھی گلہری نے اپنے گھر سے باہر جھانکا۔ ارے واہ! اس کا دل خوش ہوگیا۔ گلاب کے پودے پر ایک ننھی سی کلی مسکرا رہی تھی۔ ’’بہار آگئی‘‘ اس نے خوشی سے کہا۔ سردیوں کے چار طویل مہینے اس نے اپنےگھر میں بند گزارے تھے۔ جب وہ بہت بور ہوجاتی تھی تو اپنی امی سے پوچھتی: ’’امی ہم کب گھر سے باہر جاسکیں گے؟‘‘ امی بتاتیں: ’’ابھی دسمبر کا مہینہ ہے‘ باہر سخت سردی پڑرہی ہے۔ دسمبر کے بعد جنوری آئے گا‘ پھر فروری۔ اس وقت موسم بدلنے لگے گا اور مارچ میں یقیناً تم پھر درختوں پر پر کودتی پھروگی۔‘‘ ننھی گلہری گن گن کر دن گزار رہی تھی۔ اسے درختوں پر چڑھنا اترنا اور گھاس پر بھاگ دوڑ کرنا بہت پسند تھا اور پھر وہ اس کی سہیلیاں رنگ برنگی تتلیاں‘ سریلے گیت گانے والی چڑیاں‘ وہ ان سب کے بغیر اداس تھی۔ آج جب اس نے گلابکی کلی کھلی دیکھی تو اپنی امی کی طرف بھاگی۔ ’’امی امی! دیکھیے تو شاخوں پر پھول کھل گئے ہیں۔ اب تو ہم باہر جاسکتے ہیں ناں؟‘‘ امی نے احتیاط سے باہر جھانکا، گھاس کا رنگ سبز ہونے لگا تھا۔ درختوں پر نئی کونپلیں نکل رہی تھیں۔ کیاریوں میں ننھا سا سرخ گلاب مسکرا رہا تھا کچھ اور کلیاں بھی کھلنے کو بے قرار تھیں۔ امی نے مسکرا کر کہا: ’’ہاں! اب تم باہر جاسکتی ہو‘‘ ننھی گلہری اسی وقت اچھلتی کودتی باہر کو بھاگی۔ ’’آہا‘‘ اس نے کھلی فضا میں گہری سانس بھری۔ آزادی کے احساس سے اس کا رواں رواں سرشار تھا۔ وہ بھاگ کر کبھی ایک درخت پر چڑھتی تو کبھی دوسرے پر کچھ کھانے کو مل جاتا تو اپنے ننھے منے ہاتھوں میں پکڑ کر کترنے لگی۔کچھ دیر تو وہ یوں ہی خوش خوش دوڑتی بھاگتی رہی لیکن بورہوگئی۔ ’’مزہ نہیں آرہا‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’میرا تو خیال تھا کہ میں گھر میں بند رہ کر بور ہورہی ہوں‘ جب بہار میں باہر نکلوں گی تو خوب مزے کروں گی پھر اب کیا ہوا؟‘‘وہ سوچ رہی تھی کہ ایک سُریلی سی آواز آئی: ’’السلام علیکم! بی گلہری! بہار مبارک ہو؟‘‘گلہری نے سر اٹھا کر دیکھا۔ روبن چڑیا درخت پر بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی۔ ننھی گلہری خوش ہوکر درخت پر چڑھ گئی۔ روبن چڑیا اس کی بہت اچھی دوست تھی۔ ابھی دونوں سہیلیاں مل رہی تھیں کہ مینا، فاختہ، قمری اور بلبل بھی آپہنچیں۔ اب تو ننھی گلہری بہت خوش ہوئی اور یہ خوشی اس وقت مزید
بڑھ گئی جب رنگ برنگی تتلیاں ان کی محل کی رونق بڑھانے آگئیں۔شام گہری ہوئی تو سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔ ننھی گلہری جب رات کو امی کے پاس سونے لیٹی تو کہنے لگی: ’’امی! میں سمجھتی تھی کہ ہروقت گھر میں بند رہنے کی وجہ سے میں اداس رہتی ہوں۔ جب بہار میں باہر نکلوں گی تو ہمیشہ خوش رہوں گی‘ لیکن اب مجھے احساس ہوا ہے کہ یہ اچھے دوست ہیں جن کی وجہ سے زندگی خوبصورت لگتی ہے ورنہ کسی چیز میں مزہ نہیں آتا۔‘‘ امی اسے تھپکتے ہوئے بولیں: ’’یقیناً اچھے دوست اللہ کا بہترین انعام ہیں‘‘ ننتھی گلہری آہستہ آہستہ نیند کی وادیوں میں کھوگئی جہاں وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہی تھی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں